خوشگوار یادیں
خوشگوار یادیں
پارٹ1
بہت دنوں سے دل کر
رہا تھا کہ زندگی کی خوشگوار یادوں کے حوالے سے کچھ لکھا جائے. آج فرصت ملی ہے تو
پہلا واقعہ پیش خدمت ہے جو جب بھی یاد آتا ہے لبوں پر ہنسی بکھیر دیتا.
یہ واقع مارچ 2002
کے پہلے ہفتے کا ہے جب ہن میڑک کے سالانہ امتحانات دے رہے تھے. غالباً
اردو کا پیپر دینے کے بعد فزکس کے پیپر سے قبل ایک چھٹی تھی. ہم سکول میں بیٹھ
کر تیاری کر رہے تھے کچھ دوست سکول کی ایک اور بلڈنگ "چوہان منزل" میں پڑھ رہے تھے. اسی بلڈنگ میں دوردراز سے
آنے والوں کے لیے رہائش کا انتظام بھی تھا. رات کے تقریباً 8 کے بعد کا ٹائم تھا
اور کافی ٹھنڈ بھی تھی جب میں سب دوست جو کہ پندرہ کے قریب تھے ان کے قابو آگیا کہ
چائے پلاو. میں چائے نہیں پیتا تو پہلے ٹال مٹول سے کام لیتا گیا مگر کوئی فرق نا
پڑا آخر میں نے ہار مان لی اور اپنے ذہین میں ایک پلان بنا لیا.
ہوٹل سکول سے کوئی 100 میٹر دور تھا. میرا خیال تھا کہ
میں ان سب کو چکمہ دے کر بھاگ جاؤں گا اور میں نے یہی کیا مین روڈ پر آتے ہی دور
لگانے کی کوشش کی مگر سب لوگ جیسے پہلے ہی تیار تھے انھوں نے پکڑ لیا اور چار
دوستوں نے مجھے اٹھا لیا اور ویسے ہی ہوٹل لے گئیے.
ہوٹل
پہنچ کر میں نے تسلی دی کہ اب نہیں بھاگتا میں آڈر کر کے آتا ہوں.
مگر وہ لوگ نا مانے تو انھوں نے مظہر کامران اور مجودہ
اسسٹنٹ پروفیسر کو میرے ساتھ بھیجا کہ آرڈر کرنے کے بہانے کہیں نکل نا جائے. چائے
بنانے والا بندہ کسی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا. میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ
دونوں گارڈز کا دھیان کہیں اور ہے. میں چائے والے کے پیچھے ہوتا ہوتا پچھلی سائید گروانڈ
جہاں ویرانے اور اندھیرے کا راج تھا میں بھاگ کھڑا ہوا. ان دونوں سے مظہر
میرے پیچھے بھاگا اورمصطفی باقیوں کو آوازیں دینا شروع ہو گیا. اب حال یہ تھا کہ
پندرہ لوگ میرے پیچھے تھے.. میں بڑی پھرتی سے گراونڈ پار کرے کے گلیوں میں نکل
گیا. مجھے نہیں پتہ تھا کہ کون کدھر کو نکلا میرے پیچھے مگر یہ تھا کہ سب میری
تلاش میں ہیں اور پکڑا گیا بہت بری ہوگی.
اس طرح بھاگتے مین
سڑک آگئی وہ پار کی تو مجھے مظہر اور ذیشان رشید ایک حمام کے باہر نظر آگئیے. میں
وہی لکڑیوں کے ڈھیرکے پیچھے چھپ گیا. اندھیرا کافی تھا. یہ دونوں لکڑیوں کے پاس
آگئے اور اندازے لگانے لگے کہ میں کدھر کو نکلا ہوں. ساتھ میں باقی ساتھیوں کی
پوزیشنیز سے بھی آگاہ کر دیا. یہ وہاں سے آگے نکلے تو میرا آرادہ اب گھر کو جانے
کا تھا. لہذا میں ایک سنسان گلی میں اندھا دھند بھاگنے لگا کیوں کہ یہ گلی پار کر
جاتا تو آگے سکون تھا.
جیسے ہی میں گلی
کے اینڈ پر پہنچا جہاں دو اور راست نکلتے تھے تو وہاں ایک کونے سے رضوان
حنیف اور اسد انور چیخیں مارتے ہوئے میری طرف بھاگے. اور میں ڈر کے ادھر
کھڑا ہوگیا. مگر جلد ہی ہم تینوں سو کی سپیڈ پر بھاگ رہے تھے.
ہوا کچھ یوں کہ
انھوں نے مجھے گلی میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا اور یہ گلی کے آخر پر ایک کونے میں
چھپ کر بیٹھ گئے جہاں یہ چھپے تھے وہ گلی کے تین یا چار کتوں اور انکے بچوں کا
مسکن تھا. جیسے ہی انھوں نے چیخیں ماری کتے متحرک ہوگئے اور انکے پیچھے لگ گئے یہ
مجھے چھوڑ کے بھاگ نکلے یہ آگے آگے میں ان کے پیچھے اور کتوں کی ان گنت تعداد میرے
پیچھے. بس اللہ اللہ کرکے آگے باقی لڑکے نظر آئے کتوں کو انھوں نے بھاگا دیا. اور
میں پھر سے پکڑا گیا مگر اب لوگ پندرہ سے دس ہو چکے تھے اور میرے ساتھ چائے پلانے
کی حامی بلال افتخار نے بھر لی 😂😂😂🤣🤣🤣
جسکی وجہ سے بل بھی آدھا ہوگیا. کیونکہ اس زمانے میں گھر سے دس روپے جیب خرچ ملتا
تھا اور میں نے بچت کر کر کوئی ذاتی پچاس روپے جمع کیے ہوئے تھے اور چائے کا کپ
تقریباً سات روپے کا ہوتا تھا. چائے پی کر ہم اپنے اپنے گھروں کو کوئی دس بجے رات
ٹولیوں کی شکل میں روانہ ہوگئے.
یہ واقعہ ہے تو
معمولی مگر میں جب بھی یاد کرتا ہوں. کھل کر ہنستا ہوں.
اس واقع کے کئی
کرداروں کو ٹیگ بھی کیا ہوا ہے.
شکریہ
امجد ظفر علی
(امجد چوہدری) بقلم خود
Comments
Post a Comment