خوشگوار یادیں پارٹ 2
خوشگوار یادیں
پارٹ 2
فروری2002کے آخر میں عید الضحٰی آئی حج والے دن ہم پندرہ لوگ کیمسٹری کا
سکول ٹیسٹ دینے پہنچے ہوئے تھے. جمعہ کا دن تھا اور سردی تھی ٹیسٹ 2 بجے شروع ہونا
تھا تب تک تیاری کرنی تھی پورے سکول کو چھٹیاں تھی ہم چونکہ شاہین سٹوڈنٹ تھے تو
ہم پندرہ لڑکوں پر تعلیمی ایمرجنسی نافذ تھی. کیمسٹری کے استاد جناب محمد علی زاہد
صاحب جو کہ بہت سخت تھے انکا ڈر بھی بہت تھا کیمسٹری کے علاوہ بیالوجی بھی انکے
پاس تھی.
خیر ہم ٹیسٹ کی
تیاری کرنا شروع ہوگئے پتہ چلا کہ پییپر علامہ اقبال سکول جو کہ ہمارے سکول کا
کمپیٹیٹر تھا وہاں سے تیار ہوکر آیا ہے اور پرنسپل آفس کی الماری میں پڑا ہے. ہم
میں سے دو لڑکوں نے پیپر اڑانے کی حامی بھر لی ہم سب مطمئن ہوکر اپنا گپیوں میں
مصروف ہوگئے. جمعہ کے ٹائم جب سب لوگ جمعہ پڑھنے چلے گئے تو ہم نے پیپر نکال لیا
اور سب سوال دیکھ کر ان کو رٹہ مارنے لگ گئے. سوا دو بجے جب پیپر آیا تو وہ مختلف
تھا. سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ گئے. جیسے تیسے پیپر حل کیا اور عید کے دوسرے
دن ہمیں صبح نو بجے سکول آنے کا حکم ملا کہ سکول آکر بیالوجی کی تیاری کرو اور دو
بجے پیپر ہے. تب تو سب نے ہاں ہاں کردی.
عید کے دوسرے دن
بھوجے ہوئے ہم سب تقریباً نو بجے صبح سکول آ تو گئے. پتہ چلا کہ پرنسپل اور وائس
پرنسپل اپنے اپنے گھر قربانی کر رہے ہیں اور محمد علی صاحب پورے دو بجے آئیں گے
اور پیپر لیں گے تب تک ہم تیاری کریں. ہم میں سے کسی کا بھی پڑھنے کا موڈ نہیں
تھا. لہٰذا سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ گھروں سے نکل آئے ہیں تو اپنا اپنا انجوائے
کرو شہر میں اور ڈیڑھ بجے سکول میں دوبارہ اکٹھے ہو جاؤ. سر آیئں تو ان سے گذارش
کر کے ٹیسٹ ملتوی کروا دو یا وہ نہیں مانتے تو جیسے بھی ہو ٹیسٹ دے دو.
یہ فیصلہ ہونے کے
بعد ہم سب لوگ شہر کے مختلف کونوں میں چلے گئے. کچھ دوست ارشاد کے گاؤں نند کے
تکیہ اور کچھ محسن ابدال کے گاؤں راؤ خان والا چلے گئے. میں غلام مصطفی اور
ایک دوست انٹرنیٹ کیفے میں گھس گئے جس میں چیٹ روم میں کوئی گھنٹہ مغزماری کرکے
واپس سکول آکر پتنگ بازی کرنے لگ گئے اور پھر آوارہ گردی. ڈیڑھ بجے ہم سب سکول کی
چھت پر جمع تھے جہاں سے دور دور تک نطر جاتی تھی. دو بج گئے مگر استاد محترم کا
دور دور تک نشان نہیں تھا. میں چونکہ تب سی آر ہوتا تھا اور اس
معاملے میں کافی مشہور بھی تھا. فیصلہ ہوا کہ سوا دو سے دو تیس تک انتظار کرو اگر
کوئی نا آیا تو گھر کو واپسی. دو بیس پر دور
نظر پڑی کہ استاد محترم اپنی سائیکل پر آہستہ آہستہ آ رہے ہیں. فیصلہ ہوا کہ چور
راستے سے بھاگ جاو اور واپس کوئی نا آئے. لہذا ادھر استاد محترم سکول میں داخل
ہوئے اور چور راستے سے جانے والا سب سے آخری لڑکا میں تھا باقی جس کا جدھر منہ آیا
بھاگ گیا.
عید کی چھٹیوں کے
بعد جب سکول آئے تو آتے ساتھ ہی ہم پندرہ لوگ لائن حاضر تھے. مگر سب کا ایک
بیان تھا کہ جی انتظار کر کرکے گئے ہیں سکول میں تھا کوئی نہیں. چار چار چھڑیاں
پڑی ساتھ میں کیمسٹری کے پیپر کافی عزت افزائی کے بعد ملے کوئی کہ سب سے زیادہ
نمبر کوئی سنتالیس تھے. میری زیادہ عزت افزائی ہوئی کیونکہ میں لیڈر تھا اور میرے
نمبر انتالیس تھے. 😂😂😂😂
Comments
Post a Comment