دریائے بیاس "قصور کی کھوئی ہوئی شناخت"

 دریائے بیاس "قصور کی کھوئی ہوئی شناخت"

از امجد ظفر علی(نشان ِ قصور)

یکم ستمبر 2025

پنجاب کی زمین دریاؤں کے گیت گاتی ہے۔ کبھی ستلج، راوی، جہلم اور چناب کے ساتھ بیاس بھی اس خطے کی زندگی اور تہذیب کا اہم حصہ تھا۔ آج یہ دریا صرف قصور کے بزرگوں کی یادوں، زمین کے نشانات اور تاریخ کی کتابوں میں باقی ہے، لیکن کبھی یہی دریا قصور کی دھڑکن ہوا کرتا تھا۔ بیاس ہماچل پردیش اور جموں کشمیر کی وادیوں سے نکل کر تقریباً 470 کلومیٹر کا سفر طے کرتا تھا۔ امرتسر اور جالندھر کے میدانوں کو سیراب کرتا ہوا یہ فیروز پور کے قریب ہری کے پتن پر دریائے ستلج سے آملتا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ  دریا ندی کی صورت میں پنجاب کے کھیتوں کو زندگی بخشتا رہا، لیکن 1960 کے سندھ طاس معاہدے میں یہ بھارت کے حصے میں چلا گیا۔ بھارت نے 1976 میں پونگ ڈیم تعمیر کرکے اس کا بہاؤ روک دیا۔ اس سے پہلے اس کا پانی بھاکڑا ڈیم کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔

قصور شہر دراصل اسی دریا کے کنارے آباد ہوا۔ اس کی پرانی گزرگاہ آج بھی قصور کے مشرق سے مغرب تک ایک واضح لکیر کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ کمال چشتی دربار سے شروع ہو کر یہ بہاؤ کوٹ پکا قلعہ کی پشت، جماعت پورہ کے عقب سے ہوتا ہوا بھالہ ہٹھار تک جاتا تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں پتن ڈالا جاتا اور لوگ بیڑی کے ذریعے دریا پار کرتے۔ تحصیل چونیاں کے ایک  گاؤں چور کوٹ میں گزشتہ دنوں معائینہ کیا اور دیکھا کہ آج بھی اس کے آثار موجود ہیں۔ وہاں کے بزرگ بتاتے ہیں کہ چند دہائیاں پہلے تک وہ کشتیوں میں بیٹھ کر دریا عبور کرتے تھے اور آج بھی برسات کا پانی پرانی گزرگاہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اور زیرزمین پانی میٹھا ہے بعض جگہ پر بور کرتے 80 فٹ پر میٹھا پانی نکل آتا ہے۔ 

جب بیاس کا بہاؤ بدل کر ہری کے پتن پر ستلج میں ضم ہوا تو یہ قصور میں تین نالوں کی صورت میں بہنے لگا۔ ایک طرف کالی پل، کیسر گڑھ کے قریب ’’غائب والی پل‘‘ سے گزرتا، اور مان گاؤں کے قریب سے۔ یہ تینوں نالے موجودہ قصور بائی پاس کے قریب جا کر آپس میں ملتے اور ایک بڑی ندی کا منظر پیش کرتے تھے۔ اس دریا کی چوڑائی اپنے زمانے میں دو سے چار کلومیٹر تک اور گہرائی پندرہ میٹر تک تھی۔

بیاس صرف پانی کا بہاؤ نہیں تھا بلکہ تاریخ اور روایت میں بھی زندہ رہا۔ 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم کی فوجیں اسی دریا پر آ کر رک گئیں اور مزید آگے نہ بڑھ سکیں۔ ہندو روایات کے مطابق بیاس اور راوی کے درمیان ایک ’’امرت کنڈ‘‘ تھا جو دیوتاؤں اور راکشسوں کی کشمکش کا مرکز رہا۔ کہا جاتا ہے کہ وید ویاس اور پراسار منی نے یہاں قیام کیا اور سیتا جی نے اپنی جلاوطنی کے دن یہیں گزارے۔ اسی نسبت سے لاہور اور قصور کے قیام کو لواور کشو سے جوڑا جاتا ہے۔ بیاس کے کنارے ایک گھنا جنگل بھی ہوا کرتا تھا جسے لکھی جنگل کہا جاتا تھا۔ یہ جنگل اتنا وسیع اور گھنا تھا کہ پیدل گزرنا بھی مشکل ہو جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جنگل قصور سے بہاولپور تک پھیلا ہوا تھا۔

آج قصور کے بزرگ بیاس کو ’’بیاسا‘‘ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ ان کے حافظے میں یہ دریا نیلے اور شفاف پانی کے ساتھ موجزن ہے لیکن نوجوان نسل کے لیے بیاس صرف ایک بھولی بسری کہانی ہے۔ شہر کے بیچ جہاں کبھی دریا بہتا تھا، آج وہاں گندہ نالہ رواں ہے۔ برسات کے دنوں میں پرانی گزرگاہوں میں پانی کا بہاؤ لمحہ بھر کے لیے اس دریا کی جھلک دکھا دیتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ کبھی یہاں ایک عظیم دریا بہتا تھا۔

بیاس کی داستان قصور کی تاریخ اور تہذیب سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ دریا صرف کھیتوں کو سیراب نہیں کرتا تھا بلکہ قصور کو اس کی پہچان بھی بخشتا تھا۔ آج جب یہ دریا قصور سے غائب ہے تو یوں لگتا ہے جیسے شہر کی ایک دھڑکن رک گئی ہو۔پاکستانی قاری کے لیے خلاصہ صاف ہے: بیاس براہِ راست پاکستان میں نہیں بہتا، مگر اس کا ماحولیاتی، تاریخی اور سیاسی سایہ سرحد کے اس پار بھی پھیلتا ہیستلج کے ذریعے، ہری کے کے انتظام سے، اور خطے کی آبی سفارت کاری کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ۔ آج جب قصور میں پرانی گزرگاہوں پر آبادیوں اور سڑکوں کی تہہ چڑھ چکی ہے، ہر برسات میں میدان یاد دلاتے ہیں کہ پانی اپنی یادداشت رکھتا ہے۔ تحقیق کے اگلے مرحلے میں مقامی جی آئی ایس میپنگ، پرانے سروے آف انڈیا کی شیٹس اور نہریات کے ریکارڈ کے ساتھ زمینی مشاہدہ ملایا جائے تو بیاس کی قصوری گزرگاہ کی سائنسی بازیافت بھی ممکن ہے۔وہی قدم جو تاریخ کو متن سے نکال کر نقشے پر واپس رکھ دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کبھی بیاس اپنی پرانی راہ لوٹ آیا تو کیا یہ نیا اور بے ڈھنگا شہر اپنی بنیادوں پر قائم رہ سکے گا، یا پھر دریا اپنی زمین کو دوبارہ اپنی آغوش میں لے لے گا؟


Comments

Popular posts from this blog

ہندوستان میں مغلیہ دور میں تعلیم

A Voice That Lingers in the Heart in Loving Memory of KK