سانحہ مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971
16 دسمبر 1971
سانحہ مشرقی پاکستان
تحریر: امجد چودھری
قسط اول
16 دسمبر 1971 ڈھاکہ کے رمنا ریس پارک میں ایک ہجوم سا برپا
تھا۔ لوگ جوق در جوق ایک تقریب دیکھنے پہنچ رہے تھے یہ تقریب کسی ڈرامہ یا فلم کی
نہیں بلکہ پاکستان کی طرف سے لیفٹینٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی طرف سے جنگ
میں شکست اور ہھتیار ڈالنے کی تھی۔ جنرل نیازی پاکستان کی ایسڑن کمانڈ کے سربراہ
کی حثیت سے اور انڈیا کی طرف سے جنرل جگجیت سنگھ اڑورہ اپنی کلف لگی پگڑی اور وردی
کے ساتھ موجود تھا۔ تقریب شروع ہوئی اور جنرل نیازی نے ایک کاغذ پر دستخط کر کے
اور اپنا سروس پستول دیکر مشرقی پاکستان انڈیا کے حوالے کر دیا جو بعد میں بنگلہ
دیش بنا۔ اس تقریب کے بعد ٹائیگر نیازی اور جوانوں کے جنرل کے نام سے مشہور جنرل نیازی جو 1965 کی جنگ میں
ستارہ جرات اور دوسری جنگ عظیم میں ملٹری کراس تھا ساری دنیا کی نظر میں بزدل اور
غدار مشہور ہوگیا جو کہ آج تک بھی مشہور ہے جبکہ دوسری طرف جنرل جگجیت سنگھ جسکے سروس
ریکارڈ پر کوئی خاص چیز نہیں تھی سارے بھارت اور دنیا میں ایک فاتح اور ہیرو کے
طور پر مشہور ہے۔
اس واقع کا سارا الزام پاک فوج پر ہے اور آج تک پاکستانی
میڈیا نے عوام کو حقائق سے دور رکھ کر تصویر کا ایک رخ دیکھا کر جنرل نیازی کو
بزدل اور غدار ٹھہرا کر سارا الزام پاکستانی فوج پر ڈال دیا۔ جبکہ اس کے حقائق کو
دنیا کی نظر سے دور رکھا گیا۔ میں نے اس سلسلے میں کافی کتابیں پڑھی، آرٹیکل پڑھے
جو کہ انٹرنیشنل لکھاریوں نے لکھے وہ چیخ
چیخ کر پاکستانی فوج پر لگے الزاما ت کی نفی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک
انڈین رائٹر شرمیلا بوس کی کتاب "ڈیڈ ریکنگ" بڑی مشہور ہے جس میں اس نے
پاکستانی فوج پر لگے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس کے
علاوہ کچھ حقائق مندرجہ ذیل ہیں۔
1965 کی جنگ کے بعد انڈین انٹیلی جنس ایجنسی را کا قیا م
عمل میں آیا اور آتے ساتھ انکا پہلا منصوبہ مشرقی پاکستا ن کو الگ کرنا تھا۔ انھوں
نے اس سلسلے میں شیخ مجیب کو ٹارگٹ
کیا۔ اگرتلہ سازش کیس اس سلسلے کی ایک کڑی
تھی۔ جس میں بنگلا دیش کے قیام کی ابتدا کی گئی۔ اس کیس کہ سلسلہ میں مجیب کو
گرفتار کر لیا گیا اور اسکو راولپنڈی جیل منتقل کر دیا گیا جو بعد از رہا کر دیا
گیا۔ انڈین ایجنسیوں نے پاکستان کی اندرونی سیاست سے فائدہ اٹھاتے
ہوئے مشرقی پاکستان میں افواہوں اور
سازشوں کا بازار گرم کیے رکھا۔ 1970 میں آئے سیلاب میں کوئی 5 لاکھ کے قریب لوگ
ہلاک یا اثر انداز ہوئے ۔ مارشل لا گورنمنٹ کی طرف سے پوری طرح سپورٹ نا ملنے
سے بنگال کے لوگ خائف تھے ۔ جسکا پورا فائدہ شیخ مجیب عوامی لیگ نے اٹھاتے ہوئے 1970 کے
الیکشن میں مشرقی پاکستان کی تما م نشستوں
پر کامیابی حاصل کی اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی نے برتری حاصل
کی۔ شیخ مجیب قومی اسمبلی میں واضح اکثریت
کے ساتھ وزیر اعظم بننے کا امیدوار تھا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو اسکے مدمقابل تھا۔ جنرلیحییٰ بھی بھٹو کا حامی تھا جسکی بدولت
اندرونی انتشار پھیلنا شروع ہوگیا۔ ادھر انڈیا نے غدار بنگالیوں کے ساتھ ملکر مکتی
باہنی نامی ایک ملیشیاء تیا رکی جسکو انڈین را اور آرمی نے ٹریننگ دیکر مشرقی
پاکستان میں دیہشتگرد کاروائیاں شروع کروا دی۔ جس سے بے گناہ لوگ بھی مرنے لگے اور
پاکستان آرمی پر چھپ کر حملے ہونے لگے جسکے جواب میں مشرقی پاکستان میں انتشار کی صورتحال پیدا ہونا
شروع ہوگئی۔
شیخ مجیب سے مذاکرات میں اس نے شرط رکھی کہ قومی
اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں رکھا جائے۔ ادھر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ" جو
ڈھاکہ جائے گا ہم اسکی ٹانگیں توڑ دیں گے"
(باقی آئندہ)
Good work
ReplyDeletethank you
DeleteLooking forward to analysis!
ReplyDelete